تیری چاہت میں گھلنے لگا ہوں،
جیسے زہر آہستہ بہنے لگا ہوں۔
تیری آنکھوں کی گہرائیوں میں،
میں خود کو کہیں کھو دینے لگا ہوں۔
یہ عشق ہے یا کوئی بیماری،
دل بےقرار، سانسیں بھاری۔
بستر پر خوابوں کی چادر تنی،
پر نیند بھی ہو گئی غم کی ساری۔
لب ہلتے ہیں پر لفظ نہیں،
دل تڑپے پر نغمہ نہیں۔
دھوپ میں سایا تھا جو میرا،
اب وہ بھی ساتھ چلتا نہیں۔
محبت اگر دوا تھی کبھی،
تو زہر بن گئی ہے ابھی۔
مرہم تھا جو تیرے لمس میں،
وہ درد کی بارش بن گئی۔
No comments:
Post a Comment