ایان کا سفر
ایان یکم مارچ 2003 کو ایک تعلیم یافتہ، اچھے متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہوا۔ وہ اپنے گھر کا پہلا بچہ تھا اور سب کا لاڈلا تھا۔ جیسے ہی اُس نے دنیا میں اپنی معصوم آنکھیں کھولیں، اس کی معصومیت نے سب کے دل جیت لیے۔ وہ ایک نہایت پیارا اور شرارتی بچہ تھا، جو اپنی ہنسی سے ہر کمرے کو روشن کر دیتا تھا۔ اُس کی شرارتیں اور معصوم سوالات خاندان بھر کے لئے خوشی کا باعث بن گئے۔
جب ایان تین سال کا ہوا، تو اس کا سب سے پسندیدہ ساتھی اس کا دادا بن گیا، جو اکثر اسے مختصر چہل قدمی کے لئے باہر لے جاتے۔ ایک دن دوپہر کے وقت، جب وہ اپنے دادا کے ساتھ محلے میں گھوم رہا تھا، اُس نے ایک اسکول کے پاس کچھ خاص دیکھا—ایک شاندار اسکول فنکشن جو میدان میں ہو رہا تھا۔ رنگ برنگے سجاوٹ، بچوں کے خوبصورت لباس اور گونجتی ہوئی موسیقی نے اُس کی توجہ کھینچ لی۔ اُس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں خوشی سے چمک اُٹھیں اور اُس نے دادا کا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا،
"دادا، میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں!" اُس نے جوش بھرے لہجے میں کہا۔
دادا نے مسکرا کر اُس کے سر پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے جواب دیا، "ابھی نہیں، ایان۔ یہ اسکول کے بچوں کے لئے ہے۔ ہم یہاں سے تھوڑی دیر دیکھ لیتے ہیں، پھر گھر چلیں گے۔"
ایان کچھ لمحے وہیں کھڑا رہا، رنگین منظر سے مسحور۔ لیکن جلد ہی دادا نے اُسے واپسی کے لئے کہا اور وعدہ کیا کہ ایک دن وہ بھی اسکول جائے گا اور ایسے دلچسپ فنکشنز کا حصہ بنے گا۔ ایان نے بادل ناخواستہ واپسی قبول کر لی، لیکن اُس کا دل ابھی بھی وہاں جانے کے لئے بےچین تھا۔
اسی دوپہر جب سب اپنے کاموں میں مصروف تھے، ایان چپکے سے گھر سے نکل گیا۔ اُس کے ذہن میں اسکول فنکشن کی یاد تازہ تھی، اور اُس کے ننھے قدم اُسے دوبارہ اُس راستے پر لے گئے جہاں وہ اپنے دادا کے ساتھ گیا تھا۔
جب وہ اسکول کے قریب پہنچا، تو فنکشن پورے زور و شور سے جاری تھا۔ بچے گا رہے تھے، ناچ رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ ایان، جو ابھی اصولوں کو سمجھنے کے قابل نہیں تھا، خاموشی سے ہجوم میں گھل مل گیا۔ وہ بھی ناظرین کے ساتھ تالیاں بجانے لگا اور خوشی محسوس کرنے لگا۔
گھر میں، جب ایان کی ماں نے اُس کی غیر موجودگی محسوس کی، تو اُس نے فوراً سب کو خبر دی۔ پورا خاندان ایان کو تلاش کرنے میں لگ گیا۔
میں آپ کے ناول کے اگلے حصے کو طویل اور جذباتی انداز میں جاری رکھتا ہوں۔
نیا حصہ:
ایان کا اسکول میں داخلہ ہو چکا تھا، لیکن وہ پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ اُس کا دل زیادہ تر کھیلنے میں لگتا۔ گھنٹوں اپنے کھلونوں سے کھیلتا رہتا اور خیالی دنیا میں کھویا رہتا۔ اُس کے والدین کو فکر رہتی کہ شاید ایان سماجی طور پر پیچھے نہ رہ جائے، کیونکہ اُس کے زیادہ دوست نہیں تھے۔
چند سال گزرے اور ایان کی عمر سات سال ہو گئی۔ ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا جس نے خاندان کے ہر فرد کے دل کو دہلا دیا۔ اُس دن اسکول سے واپسی کے بعد ایان غائب ہو گیا۔ ماں نے جب اُس کو گھر میں نہیں پایا تو گھبراہٹ کے عالم میں سب کو بلایا۔ پورے گھر میں شور مچ گیا۔ ہر کوئی اپنی جگہ سے اٹھ کر ایان کو تلاش کرنے لگا، لیکن اُس کا کہیں پتہ نہ چلا۔
شام کے قریب، ایک پڑوسی نے اطلاع دی کہ ایان کو اُس نے گلی کے باہر دیکھا تھا، لیکن وہ جلدی جلدی جا رہا تھا، جیسے کسی خاص جگہ پہنچنے کی جلدی ہو۔ یہ خبر سنتے ہی ایان کے والدین کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ فوراً اُس کی نانی کے گھر کی طرف دوڑے، جو اُن کے علاقے سے کافی فاصلے پر تھا۔
جب وہ نانی کے گھر پہنچے تو دروازے پر ایان بیٹھا ملا، تھکا ہارا اور آنکھوں میں خوف۔ اُس نے اپنی ماں کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا۔ نانی اُسے اپنے سینے سے لگا کر رونے لگی۔ وہ منظر اتنا جذباتی تھا کہ ایان کی ماں خود کو روک نہ پائی اور وہ بھی اپنے بیٹے کو گلے لگا کر زار و قطار رونے لگی۔
یہ واقعہ ایان کی نانی کے لئے صدمہ ثابت ہوا۔ وہ پہلے ہی بیمار تھیں، لیکن اپنے سب سے لاڈلے نواسے کی گمشدگی کی خبر نے اُنہیں اندر سے توڑ دیا۔ کچھ دن بعد اُنہیں فالج کا حملہ ہوا، اور وہ بستر سے لگ گئیں۔ ایان اُن سے ملنے جاتا تو وہ اُسے پہچاننے سے انکار کر دیتیں۔ اُن کا ذہن صدمے کی کیفیت میں تھا، اور وہ اکثر یہی کہتیں، "میرا ایان کہاں ہے؟ اللہ مجھے میرا ایان واپس دے دے۔" یہ جملے ایان کے معصوم دل پر ایک گہرا نقش چھوڑ گئے۔
ایان نانی کے پاس جا کر اُن کا ہاتھ تھامتا، اُن کے سامنے بیٹھتا، لیکن وہ پھر بھی یہی دہراتی رہتیں، "میرا ایان کہاں ہے؟" گویا اُس کی موجودگی کو بھی وہ قبول کرنے سے قاصر تھیں۔ ایان، جو خود بھی ابھی کمسن تھا، نانی کو ایسی حالت میں دیکھ کر چپکے چپکے آنسو بہاتا۔
یہ واقعہ ایان کی زندگی میں ایک موڑ تھا۔ اُس نے پہلی بار محسوس کیا کہ زندگی میں کچھ چیزیں ہمیشہ کے لئے کھو جاتی ہیں۔ نانی کے ساتھ اُس کا وقت محدود تھا، لیکن وہ اُنہیں خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ جب بھی اُس کے والدین اُسے نانی کے پاس لے جاتے، وہ اُن کے قریب بیٹھ کر کہانیاں سناتا اور دعا کرتا کہ نانی اُسے پہچان لیں۔
حصہ چہارم: ایک نئی شروعات
وقت گزرتا گیا اور ایان ایک خاموش اور تنہا زندگی گزارتا رہا۔ اُس کے کوئی قریبی دوست نہیں تھے، اور وہ اکثر اپنی تخیلاتی دنیا میں سکون تلاش کرتا تھا۔ مگر سب کچھ اُس دن بدل گیا جب اُس کے اسکول میں ایک نئی طالبہ آئی۔ وہ ایک کوریائی لڑکی تھی، جس کے روشن چہرے اور پُرجوش انداز نے سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ اُس کا نام سو جن تھا۔
پہلے دن، سو جن کو ایان کے سامنے والی نشست پر بٹھایا گیا۔ جیسے ہی وہ بیٹھی، اُس نے ایان کی خاموش طبیعت کو محسوس کیا۔ کلاس کے دوران، وہ کبھی کبھار پیچھے مڑ کر ایان کو دیکھتی اور اُس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی، مگر ایان اُس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا تھا۔
لنچ کے وقت، جب زیادہ تر بچے گروپس میں جمع ہو کر کھانا کھا رہے تھے، ایان ایک کونے میں اکیلا بیٹھا خاموشی سے اپنا کھانا کھا رہا تھا۔ سو جن اپنے لنچ باکس کے ساتھ اُس کے پاس آئی اور مسکراتے ہوئے اُس کے قریب بیٹھ گئی۔
"ہیلو، میں سو جن ہوں۔ تم ایان ہو، ہے نا؟" اُس نے دوستانہ اور گرم لہجے میں کہا۔
ایان نے مختصر سی نظر اُٹھائی مگر کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اس بات کا عادی نہیں تھا کہ کوئی اُس سے یوں بات کرے، خاص طور پر اتنے جوش و خروش کے ساتھ۔
سو جن نے اُس کی خاموشی سے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ بولی، "تم اچھے لڑکے لگتے ہو۔ کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟" اُس نے اپنے لنچ باکس سے ایک خوبصورت ریپر میں لپٹا ہوا مٹھائی کا ٹکڑا نکالا اور اُسے ایان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، "یہ لو، یہ میری پسندیدہ ہے۔"
ایان نے چند لمحے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا مگر آخرکار مٹھائی لے لی۔ یہ ایک سادہ سی پیشکش تھی، لیکن ایان کی زندگی میں یہ ایک نئی شروعات کی علامت بن گئی۔ پہلی بار، کسی نے اُس سے بغیر کسی توقع کے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ وہ پوری طرح سمجھ تو نہیں سکا، مگر اُس نے دل میں ایک عجیب سی گرمی محسوس کی، جو اُس کے لئے نئی تھی۔
"ٹھیک ہے،" اُس نے دھیرے سے کہا، اُس کی آواز اتنی مدھم تھی کہ بمشکل سنائی دی، مگر یہ کافی تھا کہ سو جن خوشی سے چمک اُٹھی۔
اُس دن کے بعد، ایان اور سو جن نے ایک ساتھ وقت گزارنا شروع کر دیا۔ سو جن کی دوستی نے ایان کی زندگی میں روشنی کی ایک نئی کرن لا دی۔ اُس نے دھیرے دھیرے اُس دیوار کو توڑنا شروع کر دیا جو ایان نے اپنے ارد گرد بنا رکھی تھی۔ حالانکہ وہ ابھی بھی شرمیلا اور خاموش تھا، مگر سو جن کی دوستی نے اُسے ایک ایسا احساس دیا جو اُس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا—ایک احساس کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی دوستی گہری ہوتی گئی، اور ایان اسکول آنے کا انتظار کرنے لگا، نہ کہ پڑھائی کے لئے، بلکہ اُس دوست کے لئے جس نے اُس کی تنہائی بھری دنیا کو رنگوں سے بھر دیا تھا۔
حصہ پنجم: دل توڑ دینے والی جدائی
دو سال تک، ایان اور سو جن ایک دوسرے کے بہترین دوست بن گئے۔ وہ سب کچھ ایک ساتھ کرتے تھے—لنچ شیئر کرنے سے لے کر خوابوں تک کا تبادلہ۔ چاہے کھیل کے میدان میں کھیلنا ہو یا کسی معمہ کو حل کرنا، یا صرف اسکول کے بڑے درخت کے نیچے بیٹھ کر باتیں کرنا، اُن کی زندگی خوشیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ایان، جو پہلے تنہائی کو پسند کرتا تھا، اب ایک ایسی دوست کے ساتھ خوش تھا جس نے اُس کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا تھا۔
مگر خوشی ہمیشہ کے لئے نہیں رہتی، یہ ایان نے جلد ہی سیکھ لیا۔
ایک دن، جب وہ دونوں اپنے پسندیدہ درخت کے نیچے لنچ کر رہے تھے، سو جن کا چہرہ غیر معمولی طور پر سنجیدہ لگ رہا تھا۔ ایان نے فوراً محسوس کیا کہ کچھ غلط ہے اور پوچھا، "کیا ہوا؟"
سو جن نے ایک لمحے کے لئے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، پھر گہری سانس لی۔ "ایان، مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔"
ایان کا دل دھک سے رہ گیا۔ اُسے محسوس ہوا کہ جو کچھ وہ کہنے والی ہے، وہ اُس کی دنیا بدل دے گا۔ "کیا بات ہے؟" اُس نے دھیرے سے پوچھا۔
"ہم واپس کوریا جا رہے ہیں،" اُس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ "میرے والد کی یہاں کی نوکری ختم ہو گئی ہے، اور ہم اگلے ہفتے جا رہے ہیں۔"
ایان نے حیرت سے اُسے دیکھا، اُس کے لئے یہ الفاظ ہضم کرنا مشکل تھا۔ اپنے واحد دوست کو کھونے کا خیال ناقابل برداشت تھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر وہ اُنہیں روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"نہیں... تم نہیں جا سکتی،" اُس نے دھیمی آواز میں کہا، اُس کی آواز ٹوٹ رہی تھی۔ "تم میری واحد دوست ہو۔"
سو جن کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ اُس نے آگے بڑھ کر ایان کے گالوں سے بہتے ہوئے آنسو پونچھے۔ "میں بھی نہیں جانا چاہتی، لیکن میرے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔"
ایان خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ وہ زور زور سے رونے لگا، اُس کے ننھے کندھے ہر سسکی کے ساتھ لرز رہے تھے۔ سو جن نے اُسے اپنے بازوؤں میں لے لیا اور نرمی سے کہا، "میں وعدہ کرتی ہوں، ایان، میں ایک دن واپس آؤں گی۔ اور جب آؤں گی، تو صرف تمہارے لئے آؤں گی۔"
اُس نے ایان کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے اُس کے گال پر نرمی سے بوسہ دیا اور کہا، "مجھے مت بھولنا، ٹھیک ہے؟"
ایان نے سر ہلا دیا، حالانکہ اُس کا دل اداسی سے بوجھل تھا۔ وہ اُس کے الفاظ پر یقین کرنا چاہتا تھا، مگر دوبارہ اکیلے ہونے کا خوف اُس کے دل پر چھایا ہوا تھا۔
اگلے چند دنوں میں، وہ دونوں ہر لمحہ ایک ساتھ گزارنے لگے، جانتے ہوئے کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ آخری دن، جب سو جن اُس گاڑی میں بیٹھی جو اُنہیں ایئرپورٹ لے جا رہی تھی، اُس نے ایان کو آخری بار ہاتھ ہلا کر الوداع کہا۔ "خدا حافظ، ایان! یاد رکھنا، میں واپس آؤں گی!"
ایان وہیں کھڑا رہا، اُس گاڑی کو نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھتا رہا، اُس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ اُس نے سو جن کا دیا ہوا چھوٹا سا تحفہ، ایک رنگین چھوٹا چارم، اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ یہ اُس کے لئے سب سے قیمتی چیز بن گئی، ایک یادگار جو اُس دوست کی تھی جس نے اُس کی زندگی بدل دی تھی۔
سو جن چلی گئی، مگر اُس کی یادیں ہمیشہ ایان کے دل میں زندہ رہیں۔ وہ اس امید کے ساتھ جیتا رہا کہ ایک دن وہ واپس آئے گی، اور تب تک وہ اپنی دوستی کی گرمی کو اپنے دل میں بسائے رکھے گا۔
No comments:
Post a Comment